آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان دبئی میں ہونے والے دوسرے ایک روزہ میچ کے اختتامی لمحات میں ایک ایسا موقع بھی آیا جب قومی ٹیم کی کارکردگی سے دلبرداشتہ شائقین کرکٹ نے ’گو مصباح گو‘ کے نعرے لگا دیے۔
دبئی انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں ہونے والے میچ میں آسٹریلین اننگ کے 40ویں اوور میں پاکستانی ٹیم کی یقینی ہار سے مایوس پاکستانی شائقین نے ’گو مصباح گو‘ کے نعرے لگائے۔
پاکستانی کپتان بالکل پاکستانی وزیر اعظم کی طرح ایک اور ایسے میچ میں گراؤنڈ میں اپنی ذمہ داریاں بغیر ٹینشن کے نبھانے کی اداکاری کرتے دکھائی دیے جس کا فیصلہ کافی پہلے ہی ہوچکا تھا۔
اس میچ سے قبل پاکستان اپنی مشہور زمانہ بیٹنگ کی ناکامی کے باعث پہلا ایک روزہ میچ اور واحد ٹی ٹوئنٹی میچ ہار چکا تھا اور جب بھی مصباح کو صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے ٹیم کی جانب سے بڑی شراکت نہ بنانے عذر پیش کیا۔ مصباح اس دوران مستقل اعتماد کی کمی پر اصرار کرتے دکھائی دیے اور کہتے تھے کہ ایک بڑی شراکت ملنے سے ٹیم دوبارہ اسکور کرنے لگے گئی اور تمام چیزیں بالکل ٹھیک ہو جائیں گی لیکن بار یہ عذر بھی ناقابل قبول ہو گا۔
اس میچ میں پاکستان کو پہلی وکٹ کے لیے سنچری شراکت میسر آئی جو 45 ایک روزہ میچز اور 18 مہینوں کے لمبے عرصے بعد سامنے آئی لیکن یہ بھی کپتان کی امیدوں کے برعکس قومی ٹیم کی قسمت بدلنے کے لیے ناکافی ثابت ہوئی اور قومی ٹیم صرف 89 رنز کے فرق سے تمام دس وکٹیں گنوا بیٹھی۔
مصباح نے میچ کے بعد پریس کانفرنس سے خظاب کرتے ہوئے کہا کہ سب کچھ پلان کے تحت چل رہا تھا لیکن اس کے بعد ہم ناقص شاٹ سلیکشن اور خراب رننگ کی وجہ سے وکٹیں گنواتے رہے۔
میچ میں بذات خود کپتان مصباح الحق اور مڈل آرڈر بلے باز اسد شفیق نے بھی احمقانہ رننگ کا مظاہرہ کیا، اپنی اننگ کی تیسری ہی گیند پر شاٹ کھیلنے کے بعد رن بھاگنے کے لیے دوڑ پڑے تاہم اس دوران ہچکچاہٹ کا شکار ہونے کے بعد
واپسی کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر تو قسمت نے ان کا ساتھ دیا لیکن سات اوورز بعد وہ ایک مس فیلڈ پر رن آؤٹ کی صورت میں وکٹ گنوا بیٹھے۔
پہلے میچ میں اپنی ٹیم کی بدترین شکست کے بعد جب مصباح سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ ٹیم میں یونس خان جیسے تجربی کار بلے باز کی کمی محسوس کر رہے ہیں تو 40 سالہ قائد نے مسکراہٹ اور جھجک کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کچھ اس طرح اپنا ہی مذاق اڑا دیا۔
’اگر یہاں کوئی تجربہ کار کھلاڑی ہوتا تو بھی ایسی تباہ کن پرفارمنس سے بچاؤ کی یقین دہانی نہیں کرائی جا سکتی تھی، میں بھی تجربہ کار ہوں لیکن کوئی رن بنانے سے قاصر رہا تو دراصل یہ مکمل ٹیم کی ناکامی ہے، اگر آپ پراعتماد نہ ہوں اور وکٹیں گنواتے رہیں تو یہ سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے‘۔
یقیناً مصباح نے انتہائی خوبصورتی سے تمام تر الزام اپنے سر لے لیا لیکن گلین میکس ویل کا محض دو کے انفرادی اسکور پر ڈراپ کیا جانے والا کیچ، پاور پلے میں گرنے والی وکٹوں اور اچھے آغاز کے باوجود بہتر اسکور کرنے میں ناکامی پر ہونے والے سوالات کے مبہم جوابات کپتان کی لاچارگی اور بے بسی کو ظاہر کر رہے تھے۔
اس دوران ایک سینئر صحافی نے جب ورلڈ کپ انہیں ایک روزہ ٹیم کا کپتان برقرار رکھے جانے کے امکانات کے حوالے سے سوال کیا تو کپتان کچھ یوں گویا ہوئے ’دیکھیں کیا ہوتا ہے، ہر کسی کو زندگی میں ایسے مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہمیں جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔
اب آخری ایک روزہ میچ کی حیثیت فری ڈریس ریہرسل سے زیادہ نہیں لیکن اس میچ میں فتح کے ساتھ مصباح نیوزی لینڈ کے خلاف ہونے والی پانچ ایک روزہ میچز کی سیریز سے قبل ناکامیوں کے بھنور میں پھنسی ٹیم کو کچھ توانائی فراہم کر سکتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اور سلیکٹرز شاید فی الحال تو مصباح کو ’جانے‘ کا نہ کہیں لیکن شائقین کرکٹ عمران خان کے چاہنے والوں کی جانب سے رکھی گئی روایت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نومبر میں اپنی بھڑاس نکال سکتے ہیں۔